اگر کعبہ کا رخ بھی جانب مے خانہ ہو جائے

اگر کعبہ کا رخ بھی جانب مے خانہ ہو جائے
تو پھر سجدہ مری ہر لغزش مستانہ ہو جائے

وہی دل ہے جو حسن و عشق کا کاشانہ ہو جائے
وہ سر ہے جو کسی کی تیغ کا نذرانہ ہو جائے

یہ اچھی پردہ داری ہے یہ اچھی رازداری ہے
کہ جو آئے تمہاری بزم میں دیوانہ ہو جائے

مرا سر کٹ کے مقتل میں گرے قاتل کے قدموں پر
دم آخر ادا یوں سجدۂ شکرانہ ہو جائے

تری سرکار میں لایا ہوں ڈالی حسرت دل کی
عجب کیا ہے مرا منظور یہ نذرانہ ہو جائے

شب فرقت کا جب کچھ طول کم ہونا نہیں ممکن
تو میری زندگی کا مختصر افسانہ ہو جائے

وہ سجدے جن سے برسوں ہم نے کعبہ کو سجایا ہے
جو بت خانے کو مل جائیں تو پھر بت خانہ ہو جائے

کسی کی زلف بکھرے اور بکھر کر دوش پر آئے
دل صد چاک الجھے اور الجھ کر شانہ ہو جائے

یہاں ہونا نہ ہونا ہے نہ ہونا عین ہونا ہے
جسے ہونا ہو کچھ خاک در جانانہ ہو جائے

سحر تک سب کا ہے انجام جل کر خاک ہو جانا
بنے محفل میں کوئی شمع یا پروانہ ہو جائے

وہ مے دے دے جو پہلے شبلی و منصور کو دی تھی
تو بیدمؔ بھی نثار مرشد مے خانہ ہو جائے


غش ہوئے جاتے ہو کیوں طور پہ موسیٰ دیکھو

غش ہوئے جاتے ہو کیوں طور پہ موسیٰ دیکھو
کیوں نہیں دیکھتے اب یار کا جلوہ دیکھو

مجھ سے دیدار کا کرتے تو ہو وعدہ دیکھو
حشر کے روز نہ کرنا کہیں پردا دیکھو

غش کے آثار ہیں پھر غش مجھے آیا دیکھو
پھر کوئی روزن دیوار سے جھانکا دیکھو

ان کے ملنے کی تمنا میں مٹا جاتا ہوں
نئی دنیا ہے میرے شوق کی دنیا دیکھو

طور پر ہی نہیں نظارہ جاناں موقوف
دیکھنا ہو تو وہ موجود ہے ہر جا دیکھو

اثر نالہ عاشق نہیں دیکھا تم نے
تھام لو دل کو سنبھل بیٹھو اب اچھا دیکھو

طور مجنوں کی نگاہوں کے بتاتے ہیں ہمیں
اسی لیلیٰ میں ہے اک دوسری لیلیٰ دیکھو

پرتو مہر سے معمور ہے ذرہ ذرہ
لہریں لیتا ہے ہر اک قطرہ میں دریا دیکھو

دور ہو جائیں جو آنکھوں سے حجابات دوئی
پھر تو دل ہی میں وہ عالم کا تماشا دیکھو

سب میں ڈھونڈا انہیں اور کی تو نہ کی دل میں تلاش
نظر شوق کہاں کھا آئی ہے دھوکا دیکھو

نہیں تھمتے نہیں تھمتے میرے آنسو بیدمؔ
راز دل ان پہ ہوا جاتا ہے افشا دیکھو

جس طرف دیکھتا ہوں جلوہ جانانہ ہے

جس طرف دیکھتا ہوں جلوہ جانانہ ہے
اب نظر میں کوئی اپنا ہے نہ بیگانہ ہے

کعبہ کعبہ ہے صنم خانہ صنم خانہ ہے
سنتے ہے ٹوٹا سا دل منزل جانانہ ہے

مدتیں گزری گریباں کا ہوا کام تمام
لیکن اب تک اسی دھن میں دل دیوانہ ہے

ہائے کیا پوچھتے ہو برہمنی بزم خیال
اب نہ وہ شمع ہے محفل ہے نہ پروانہ ہے

رہے اے نازک جاناں تیری دنیا آباد
ہر لب زخم جگر پہ تیرا آفسانہ ہے

کس شہنشاہ حسیناں کا گدا ہے بیدمؔ
کہ گدائی میں بھی ایک شوکت شاہانہ ہے